Sunday, January 2, 2011

”یَااَللّٰہُ یَاسَلاَمُ“ کا انوکھا کمال

”یَااَللّٰہُ یَاسَلاَمُ“ کا انوکھا کمال (منصور احمد،تونسہ شریف)

یہ 1990ءکی بات ہے۔ ملازمت میں میری ترقی ہوئی اور مجھے دور دراز علاقے میں بھیج دیا گیا۔ وہاں کچھ ایسی نوعیت کا کام تھا کہ ہر طرف ڈیزل، پٹرول اور لوہے رگڑنے کی بُو تھی اور ویلڈنگ کا دھواں بھی بہت تھا۔
علاقہ ایسا کہ شہر کے اندر مختلف جگہوں پر کئی کئی سالوں کے جوہڑ موجود تھے۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ شام کے وقت کافی حبس ہوجاتی تھی۔ ایک عجیب صورت حال تھی جو میری طبیعت برداشت نہیں کررہی تھی۔ صحت کے بہت سے مسائل پیدا ہورہے تھے اور ساتھ ہی نزلہ زکام ہوگیا۔ بس ناک سے پانی ہی پانی بہہ رہا تھا۔ رکنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ زکام کا علاج کروایا کوئی افاقہ نہیں ہوا۔
طب کے علاج کرائے، ایلوپیتھی کے علاج کرائے، ہومیو پیتھی کو آزمایا، چھوٹے چھوٹے ٹوٹکے آزمائے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کوئی بھی جو نسخہ بتاتا میں آزماتا چلا گیا لیکن زکام نے میری جان نہ چھوڑی۔ دو سال کے بعد میں اسلام آباد گیا الرجی سنٹر سے ٹیسٹ کرایا۔ ڈاکٹر صاحبان کے علاج کئے فائدہ نہیں ہوا۔ اب ناک کے غدود مقدوم ہوگئے اور غدود نے ناک بند کردی۔ 1998ءمیں نشتر ہسپتال سے ناک کا آپریشن کرایا۔ تین چار ماہ کے بعد غدود دوبارہ بڑھنے لگے۔ زکام بحال تھا اور ناک دونوں طرف سے بند ہوگئی ۔ میں دوبارہ آپریشن نہیں کرانا چاہتا تھا۔ سر بوجھل جیسے دماغ نہیں ایک پھوڑا ہے۔ ہر چار گھنٹے کے اندر مجھے نیند کی ضرورت ہوتی۔
ملازمت بھی کرتا رہا اور تکلیف بھی برداشت کرتا رہا۔ میرا ہر دن بے چین اور ہر رات بے سکون تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن میں نے سوچا کہ سامنے والے میڈیکل سٹور کی تمام دوائیں کھالوں تو پھر بھی میرا زکام ٹھیک نہیں ہوگا۔
میری حالت ناقابل بیان اور ناقابل برداشت تھی۔ ای این ٹی کے ڈاکٹرز اور پروفیسرز سے ملا۔ سب آپریشن کی بات کرتے تھے جو میں دوبارہ نہیں کرانا چاہتا تھا۔
ناک کو نمک والے پانی سے دھوتا اور دن میں تین چار مرتبہ بھاپ دیتا۔ رات کو موٹے کپڑے سے سر کو ڈھانپتا۔ ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا میرے لئے موت کا پیغام لاتا تھا۔ اب صرف ایک راستہ رہ گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکا جائے اور اس کے ناموں کا سہارا لیا جائے۔
ہم سارے گھر کے افراد اکٹھے ہوئے اور ”یااللہ یاسلام“ کا ذکر شروع کردیا۔ ہم نے چند نشستوں میں ایک لاکھ مرتبہ یہ ورد کیا اور اس کے بعد بھی پڑھتے رہے۔ کچھ دنوں کے بعد میں حسب معمول ڈیوٹی پر گیا۔ اخبار میں ایک مضمون ناک کی بیماریوں کے متعلق تھا۔ پڑھا! حکیم صاحب نے تجویز کیا کہ ناک کے غدود کو ریٹھا کاٹتا ہے۔ نسوار بناکر سونگھ لیا کریں۔ میری ناک تو کئی سال سے متواتر بند تھی۔ میں ناک میں ریٹھا ڈالنے لگا۔ یہ عمل بڑا تکلیف دہ تھا۔ روزانہ ایک سفید جھلی اترجاتی تھی۔ اور تقریباً ایک ماہ کے اندر میرے ناک کی ایک سائیڈ کلیر ہوگئی۔ میں نے یہ دوائی جاری رکھی۔ ایک سائیڈ کھل گئی اور دوسری سائیڈ کا غدود چھوٹا ہوگیا لیکن اس کا وجود باقی رہا۔ زکام میں افاقہ تھا۔ سر کا بوجھ بھی ختم ہوگیا اور کچھ سکون ملا۔ جینے میں دلچسپی دوبارہ عود کر آئی۔ پھر میرے ہاتھ پر ایک سفید نشان نمودار ہوا۔ اسپیشلسٹ کو دکھایا۔ اس نے دوائی تجویز کی اور ایک ٹیکہ لگوانے کا کہا۔ یہ عمل کیا اور تقریباً دس دن کے بعد نہ زکام رہا اور نہ غدود کا نام و نشان رہا لیکن ہاتھ پر سفید نشان ابھی باقی ہے۔ ٹھیک نہیں ہوا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے ناموں اور صفات کی برکت سے میری رہنمائی کی اور میں اٹھارہ سال کے بعد اس بیماری سے ٹھیک ہوا۔ اللہ تعالیٰ اسباب بنادیتے ہیں اور ساری طاقتیں اس کے ہاتھ میں ہیں۔ کہاں سات سات سو روپے کے نیزل سپرے اور انٹی بائیوٹک اور کہاں دو روپے کا ریٹھا۔
مجھے نہ ریٹھے نے ٹھیک کیا اور نہ ٹیکے نے۔ صرف اللہ تعالیٰ نے شفاءبخشی۔ تمام بہن بھائیوں سے گزارش ہے کہ کسی دوائی پر، کسی ڈاکٹر پر اور کسی حکیم پر بھروسہ نہ کریں۔ یہ صرف اسباب ہیں جو اللہ تعالیٰ مہیا فرما دیتے ہیں۔ یہ سب مادی وسائل ہیں اورجو اللہ تعالیٰ پیدا فرما دیتے ہیں۔ جب کوئی مشکل یا ناگہانی آفت آپ کو گھیرلے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں اور اسی سے رابطہ میں رہیں۔

No comments: